پاک چین تعلقات پر تنقید

پاک چین تعلقات پہ تنقید ؟ عالمی تعلقات خاندانی رشتے نھیں ہوتے،یہ تعلقات عقیدے،درد، احساس اور قربانی کے جذبےکی بجائے قومی مفادات کی بنیاد پہ قائم ہوتے ہیں۔آپ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ تعلقات و معاہدے دیکھ لیں،اپ ایران کے ساتھ ہونے والا گیس پائپ لائن معاہدہ دیکھ لیں جس کی عدم تکمیل کی بنیاد پہ ایران 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کررہا ہے جو بیشک حق بجانب ہے۔یعنی مذہبی قربت کے باوجود آپ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔ویسے بھی قرض دینے والے اور قرض لینے والے کبھی برابر نھیں ہوتے نہ ہی سودے بازی برابری کی بنیاد پہ ہوتی ہے۔ آپ کو چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں چینی استحصال ستا رہا ہے تو آپنے حاکموں کے خلاف جدوجھد کریں کہ وہ نہ صرف چین کے ساتھ بلکہ ہر ملک کے ساتھ معاہدے کرتے وقت قومی مفادات میں بہتر حکمت عملی نھیں بناتے بلکہ اکثر اپنے ذاتی کمشنوں اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بھئی ،،اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرو،،دیکھو کہیں چور تمہارے اپنے گھر میں ہی چھپا ہے اور تم دوسروں کو طعنے دیتے پھرتے ہو۔ پھر تمہاری ریاست کونسی سوشلسٹ (مزدور)ریاست ہے جو چین تمھیں خصوصی سہولیات،عنایات و رعیایات ،بخشے،تم عالمی سامراج کی دلالی میں ہر حد کراس کر جاتے ہو،تم سامراج کو اڈے دیتے ہو، سامراج کی پراکسی وار میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنتے ہو،تم ورلڈ بنک اور آئ ایم ایف سے قرض ملنے پہ بغلیں بجاتے ہو،تم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وارے نیارے جاتے ہو،تم ہمیشہ امریکہ کی خوشنودی چاہتے ہو،اور چین سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ اپنے خسارے برداشت کرتے ہوے،اپنے بندے مرواتے ہوے تمھیں فایدے دے،ترقی کی منازل طے کرنے میں فی سبیل اللہ مدد دے۔یعنی ،،کھان پین نوں اللہ رکھی دھون بھناؤن جما،،۔ وہ جان توڑ جدوجھد کے بعد ،خونی انقلاب کے بعد اس منزل پہ پہنچے ہیں تم بھی جدوجھد کرو اور یہ مقام حاصل کرو۔ پاکستانی ٹرکوں ،ٹرالیںوں کے پچھے لکھا ہوتا ہے ،،جلنے والے کا منہ کالا،،اور یہ کہ محنت کر حسد نہ کر تم بھی محنت کرو اور ثمر پاؤ! چین کی ترقی و خوشحالی سے جلنے کا کچھ فایدہ نہیں ہو گا،ویسے بھی پنجابی میں کہتے ہیں کہ ،،ہانڈی ابلے گی تے اپنے ای کنڈھے ساڑے گی،،۔ چین نے یہ منزل خونی انقلاب کے بعد پائی ہے تم بھی انقلابی جدوجھد کرو اور اس مقام کو پا لو جہاں مزدور دوست ،وطن دوست پالیساں بنا سکو۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

کیا چین ایک سامراجی ملک ہے؟

کیا چین ایک سامراجی ملک ہے؟            آج کل کچھ دانشور اٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے ایک ہی ورد کرتے ہیں کہ ہآااااااہ چین میں سرمایہ دارانہ نظام عود آیا ہے بعض تو کہتے ہیں چین میں کبھی سوشلزم قائم ہی نھیں ہو سکا ۔الغرض جتنے منہ اتنی باتیں! اب چینی کمیونسٹ پارٹی کو کون بتائے کہ پاکستانی کمیونسٹوں کے پاس چین کی رہنمائی کے لیےنادر نسخے و نقش موجود ہیں! مگر حیرت ہے کہ وہ ہمارے سرخ تعویذوں سے فائدہ ہی نھیں اٹھا رہے۔ہمارے سرخ علم کے ماہر جادوگروں کو کوئی گھاس ہی نھیں ڈال رہے ۔     اگر ہم اس صورت حال کا بغور جائزہ لیں توایک تلخ حقیقت یہ بھی نظر آتی ہے کہ سرمایہ داری نظام و سامراج کی خدمت اس طرح بھی کی جاتی ہے کہ لوگوں سے امید چھین لو۔ثابت کرو کہ دنیا میں ہر طرف ظلم ہی ظلم ہے استحصال ہی استحصال ہے۔مثال کے طور پہ دور کی کوڑی لاؤ کہ چین میں ریاستی سرمایہ داری نظام رائج ہے ساتھ ہی یہ بھی بتاؤ کہ چین میں جمہوری آزادیاں نھیں ہیں،ٹریڈ یونینز نھیں ہیں،بے بس محنت کشوں کو کوئ حقوق حاصل نھیں ہیں،تنخواہیں بہت کم ہیں،جھوٹ بولو کہ چین میں صرف کیمونسٹ پارٹی ہے اور اس کے علاؤہ کوئی پارٹی سیاست میں حصہ نھیں لے سکتی،سرمایہ داروں کی جنت ہے چین جہاں بلینرز بستے ہیں،لوگوں کو یہ باور کرواؤ بلکہ یقین دلاؤ کہ امریکہ یورپ سے لیکرچین تک سب ایک ہیں ،سب سامراجی ہیں ۔بلکہ امریکہ یورپ کو بھی کسی حد تک معافی مل سکتی ہے مگر چین، چین کو پکڑو بچنے نہ پاے۔ماوزے تنگ کی دانش کا قائدانہ صلاحیتوں کا تجزیہ نھیں بلکہ اس کے افکار و شخصیت کا پوسٹ مارٹم کرو ،مذاق اڑاؤ ،ایڑی چوٹی کا زور لگا دو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ماؤ ایک موقع پرست و بیکار لیڈر تھا جس نے چین میں ایک ایسا انقلاب برپا کرتے عوام کی قیادت کی جنھیں بیوقوف چینی آج بھی اتنا احترام دیتے ہیں اور فخر کرتے ہیں آؤ ان چینیوں کو سمجھائیں کے تمہارے لیڈر کل بھی غلط تھے اور آج بھی غلط ہیں۔کیونکہ وہ پاکستانی لال بجھکڑوں سے مشورہ ہی نھیں لیتے!وہ دانائے دنیا جو کہتے ہیں کہ چینی نظام میں اچھائیوں کو چھوڑو خورد بین لگا کر ڈھونڈ ڈھونڈ کے ان کی کمزوریاں سامنے لاو کوئ ایئڈل کوئی رول ماڈل ،کوئ اچیومنٹ،کوئ کامیابی بھلے وہ چھوٹی ہو یا بڑی اسے اگنور کرو،ناکامیاں اور اندھیرا ہی اندھیرا دیکھاؤ یہاں اس کام پہ معمور ہیں کچھ نام نہاد انقلابی اور اپنے آپ کو ترقی پسند کہنے والے لبرلز ،ٹراٹسکایئٹس و سٹالنسٹس جو آپ کو محنت کشوں کی صفوں سے کہیں دور سوشل میڈیا پہ صاف ستھری متنازع دانش بگھارتے عام ملیں گے۔جنہیں محنت کش طبقے کے مصائب و آلام کی بجائے فکری مبالغہ آرائ کےدنگل جیتنے سےدلچسپی ہوتی ہے۔انھیں کیا لگے یہاں بجلی کے بلز اور عوامی مسائل کیسے محنت کشوں پہ نت نیئ قیامت ڈھاتے ہیں،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی پالیسیوں کو ظالمانہ انداز میں نافذ کرتے ہوئے حکمران ٹولا کیسے اپنے کمیشن و حصہ پتی وصول کرنے کے لیے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ جن کو فلسطین کی تباہی سمیت دنیا بھر میں دندناتا ہوا امریکی سامراج تو سامراج نظر نھیں آتا لیکن چین انھیں ہر پل سامراج دیکھائی دیتا ہے۔ان کی نیندیں آڑی ہوئ ہیں کہ ہآااااااہ چین سامراج ہوگیا ۔چین میں سرمایہ دارانہ جبر انھیں ستاتا ہے۔انھیں ایک پسماندہ قوم کو ترقی کی راہ پہ ڈالنے والی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت دیکھائی نھیں دیتی ایک ارب تیس کروڑ والے ملک سے بھکاریوں کا خاتمہ ،عورتوں کے استحصال کا خاتمہ نظر نھیں آتا ،بیروزگاری،لاعلاجی،بے گھری سے نجات نظر نھیں آتی،سرمایہ داری نے جو ترقی صدیوں میں کی وہ ترقی دھائیوں میں کرنے والے چین کا کوئی کمال نظر نھیں آتا نظر آتا ہے تو چین سامراج کے روپ میں نظر آتا ہے۔،،بندہ پچھے عقل دے انھیںو چین نے کیہڑے ملک تے جنگ لائی اے ؟کتھے جنگاں لوا کے اسلحہ ویچیا اے؟کس ملک تے پابندیاں لایئاں نے؟کس ملک دے بجٹ ڈکٹیٹ کر کے بنواے نے؟کیہڑے ملک دی صنعت نوں روکیا اے ؟سامراج تے امبر ولاں وانگوں کجھ وی پھٹن نھیں دیندا،چین نے کیہڑی پالیسی دتی اے وئی تسی اپنی خودمختاری چھڈو؟تسی اپنے حاکماں دیاں بیہودگیاں روکو بجاے ایس دے کہ چین نوں ذمے دار ٹھہراؤ،، ۔مانا چین میں سب ٹھیک نھیں مگر سب خراب بھی نھیں ہے لہذا ہوش کے ناخن لو۔ محنت کش طبقے کی مدد نھیں کرسکتے ،انھیں امید و سہارا نھیں دے سکتے ،انھیں منظم ہونے میں مدد نھیں دے سکتے تو کم از کم انھیں مایوسی کے اندھیروں میں مت دھکیلو ۔سامراج کے ماوتھ پیس تو نہ بنو!لوگ تب ہی لڑتے ہیں جب انھیں جیتنے کی امید ہو،کوئ رول ماڈل ہو۔چینیوں نے معجزہ نما ترقی کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر میں جٹے ہوے ہیں۔اور اس میں وہ بلاشبہ کامیاب ہوں گے۔ہمیں ان سے زیادہ اپنی فکر کرنی چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے اور چین سے سیکھنا چاہیے ۔چینی ماڈل کو چھومنتر کے ذریعے یہاں فٹ نھیں کیا جاسکتا مگر اس سے بہت بہت سیکھا جا سکتا ہے۔انقلاب زندہ باد ۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ! کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی