مدارس پہ حکومتی کنٹرول؟
تحریر :کامریڈ عرفان علی آج کل یہ بحث زور شور سے جاری ہے کہ مدارس کے حوالے سے حکومتی پالیسی میں تبدیلی یا حکومتی کنٹرول برداشت نھیں کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں حکومت کو ڈرایا دھمکایا بھی جارہا ہے کہ احتجاج ہوگا حکومت ہوش کے ناخن لے سوشل میڈیا پہ بھی مہم جاری ہے کہ خبردار مدارس کو نہ چھیڑنا ورنہ حشر بپا ہوگا۔ آیئے ذرا ایک اور نظر سے دیکھتے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ 1972 بھٹو دور کے تعلیمی اداروں کی نیشنلایئزشن پالیسی بہرحال ایک عوام دوست پالیسی تھی۔اور طبقاتی نظام تعلیم پہ کسی حد تک چوٹ تھی۔جس کے خلاف منافع پرست طبقے کو نوازتے ہوئے اب تک سینکڑوں نھیں ہزاروں سرکاری اسکول مختلف حیلے بہانوں ،اور پالیسیوں کے تحت عملاً پرائیویٹ کیے جا چکے ہیں ابھی کیے جارہے ہیں جو سراسر عوام دشمنی ہے۔مگر یہ مذہبی پیشوا و مذہبی جماعتیں حکومت کی اس پالیسی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے ۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ،تدریسی اسٹائل،سیلبیس نہایت پسماندہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری ڈگریوں کی دنیا میں کوئی وقعت نھیں ۔اس سرکاری چلن کو بدلنے کی ضرورت ہے جسے ایک بڑی عوامی تحریک ہی بدلنے پہ مجبور کر سکتی ہے۔مگر اس تجاہلِ عارفانہ کے باوجود بھی دینی مدارس کی بجائے ریاستی تعلیمی ادارے بہرحال بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ریاستی تعلیمی اداروں میں مدت ہوئی یونین سازی پہ پابندی یعنی طلباء کو اپنے حقوق کی جدوجھد کی اجازت نھیں جبکہ مذہبی پیشوا/مذہبی جماعتیں ان مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو اپنے مقاصد کے لیے ہمیشہ سیاست کا ایندھن بناتے أے ہیں۔یہ مذہبی ادارے ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم گہری کرتے ہیں۔ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان مدارس میں ان مذہبی جماعتوں مربعی و پیشواؤں کے اپنے بچے نھیں پڑھتے(ان کے بچے جدید تعلیمی اداروں میں اکثر مغربی ممالک سے تعلیم حاصل کرتے ہیں)جبکہ مزدوروں کسانوں یا غریبوں کے بچے ہی ان مدارس میں پڑھتے ہیں جنھیں عصر حاضر کی جدید تعلیم سے دور رکھتے ہوے اس زعم میں مبتلا کردیا جاتاہے کہ آپ کے پاس دین کا علم ہے آپ عالم ہو آپ،، اکرام،، ہو ،،فاضل،،ہو۔ پھر یہ کہ دنیاوی تعلیم کی کیا ضرورت ہے بلکہ یہاں تکہ کہ دنیاوی تعلیم تو بھٹکے ہوئے لوگوں کا کام ہے یہ تو سیکیولر ذہن پیدا کرتی ہے جو ایک طرح سے کفر ہے۔حالانکہ ہمارا سرکاری تعلیمی نظام بھی سیکولر ازم کی بجائے رجعت پسندی کو ہی فروغ دیتا ہے۔ مدارس کےان طلباء کومہتمم و فرقہ پرست جماعت کے لیے استعمال کرنے کی یہ روش سوسائٹی کو پسماندگی و انارکی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ہر مدرسہ اپنے فرقے کے نقطہء نظر کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے ہی حق پہ سمجھتا ہے ۔ مدارس بڑا واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ وہ اپنی پسند کی ریاست بنانا چاہتے ہیں لہذا جس ریاست سے رجسٹریشن کا سرٹیفیکیٹ لیتے ہیں اسی کے خلاف بچوں کی ذہن سازی کرتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہاں برسوں سے چھوٹے موٹے فسادات سے لیکر منظم دہشت گردانہ کارروائیوں کی صورت عوام و مختلف ادارے بھگت رہے ہیں ،ایک اندازے کے مطابق پچھلے چند برسوں میں نوے ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہاں کی حکمران اشرافیہ نے طے کر لیا تھا کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مذہبی جماعتوں کو عوام کے خلاف بہ طور ہتھیار استعمال کرنا ہے اور پھر جہاد افغانستان وہ آخری کیل ثابت ہوا کہ اب سوسائٹی انھیں کے رحم کرم پہ ہوگی۔ اور یہ مذہبی پیشوا و جماعتیں اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ عام آدمی بیچارہ کیاریاست کے طاقتور ترین ادارے بھی ان کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی بات ان کی اجارہ داری کے خلاف ہو،ریاست و جدید زمانے کی ضرورت ہو یہ خم ٹھونک کر میدان میں اتر آتے ہیں اور حکومتوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑھتی ہے۔اپ دنیا بھر کے اسلامی ممالک دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی اس طرح سے کھل کر کھیل کھیلنے کا موقع نھیں ملے گا جس طرح ان کے پاس پاکستان ایک جاگیر یا انکی اپنی اپنی سلطنت کی صورت موجود ہے۔یہاں تک کہ سعودی عرب میں بھی اس طرح کھلی چھوٹ نھیں ہے ۔مگر پاکستان ہے کہ یہاں قربانی کی کھالوں ،چوک چوراہوں ،دکانوں میں رکھے چندہ کے باکس،ملکی زرداروں ،اداروں کی مدد کے علاؤہ بھاری بین القوامی فنڈنگ اور غریب غرباء کے بچے ان کی قوت ہیں۔ اج پاکستان عالمی مسابقت کیا، اپنے ریجن میں بھی پسماندہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔صنعت و زراعت تباہ ہوچکی ہیں،بیروزگاری کا دور دوری ہے۔جس سے نکلنے کیلئے جدید علوم اور ٹیکنالوجی میں ترقی ضروری ہے مگر یہ جدید سوچوں کے مخالف ہیں۔یہاں سائنسدان و دانشور خوف کی فضا میں جیتے ہیں کہ کہیں کسی شر پسند کے ہاتھوں جان نہ گنوا بیٹھیں ۔یورپ اپنے پادریوں کو چرچ کی حد تک کنٹرول کرنے کے بعد ہی ڈارک ایج سے باہر نکل کر ترقی کرسکا۔اس میں بھی کوئی شک نھیں کہ یورپ کی ترقی کے پیچھے ایشیا و افریقہ کا استحصال بھی شامل ہے مگر انھیں اس منزل تک پہنچانے میں بہرحال جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کا نمایاں کردار ہے۔جب کہ ہم آج بھی پھونکوں سے دشمن کی تباہی کے خواب دیکھتے ہیں۔ساری اسلامی دنیا مل کر بھی ایک چھوٹے سے اسرائیل کی غنڈہ گردی،اور مظلوم فلسطینیوں کی خون ریزی کو نھیں روک سکتے تو وجہ معاشی و تعلیمی پسماندگی ،سایئنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پسماندگی ہے۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی