چیخیں للکار بنیں گی!

چیخیں للکار بنیں گی ! جدید دنیا میں ریاست اور مذہبی معاملات کو الگ الگ رکھ کر ہی ترقی کی جا سکتی ہے۔جدید ریاست سیکولر بنیادوں پہ مناسب طور پہ اپنے عوام کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔جبکہ یہ تیھوکریسی پہ مبنی ریاستیں حکمران اشرافیہ و سامراجی ممالک کی منشاء و مفادات کے تحفظ اور عوام سے جمہوری و انسانی حقوق چھیننے کی پالیسی سماج کو ننگے جبر نراج اور تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس تیھوکریسی نے ہمارے ملک کو ،،اکھاڑہ ،،بنا کر رکھ دیا ہےیہاں سوچنے سمجھنے والے حساس ذہن موت کے سائے میں ،خوف کی فضا یعنی کربناک حالات میں جیتے ہیں۔ ہماری شعوری/تعلیمی پسماندگی ،نفاق،فرقہ واریت ،انتہا پسندی و شدت پسندی ریاست کی اس تیھوکریسی پہ مبنی پالیسی کا خاص نتیجہ ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور سامراجی پالیسی ساز نھیں چاہتے کہ یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ہو،یہاں سوال کرنے کی آزادی ہو،یہاں جمہوری سوچیں اور ادارے مضبوط ہوں،یہاں سیکولر ازم فروغ پائے۔جی ہاں مقتدرہ نھیں چاہتی کہ امن مساوات و بھائی چارہ ہو،کہ تمام شہری برابر ہوں۔ بیشک ہمارے عوام تہذیبی و فطری طور پہ رجعتی نھیں ہیں مگر یہاں رجعت کا ،،تڑکا،، لگایا جاتا ہے،یہاں جہادی پلانٹ کیے جاتے رہے ہیں،یہاں ڈالروں کی برسات ہوتی رہی ہے اس تہذیب میں رجعتی فصلوں کی آبیاری کے لیے،یہاں تعلیمی نظام اور الیکٹرانک و پیپر میڈیا پہ رجعت پسندوں کو خاص مواقع و مراعات دی جاتی ہیں۔انھیں ریاستی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔یہاں سیکیولر ازم کو کفر بنا کے پیش کیا جاتا ہے ،یہاں سوشلزم کو دہریت کا ٹیگ لگا کر زہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے،یہاں ریاست کو ایک جدید ریاست نھیں بلکہ محمد بن قاسم کی مہربانی سے قائم ایک سلطنت سمجھا جاتا ہے جہاں مذہبی پیشوا و مذہبی سیاسی جماعتوں کو کھل کر جمہوریت دشمن کھیل کھیلنے کی آزادی دی جاتی ہے۔یہاں جہل کے ہاتھوں علم و شعور کو بیدردی سے بار بار قتل کیا جاتا ہے اور پھر قاتلوں کو پھولوں کے ہاروں سمیت ان پہ دولت نچھاور کی جاتی ہے اور بعض اوقات ریاستی اہل کار جنہوں نے اس آیئں پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے وہ اس حلف کی صرئیحاخلاف ورزی کرتے ہوے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال بلکہ مجرمانہ قبیح فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔وقتی طور پہ قانون ایک کمزور سا ہاتھ بھی ڈالتا ہے مگر وہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح ہوتا ہے۔ایک مجرم کی پھانسی سے پہلے لاکھوں ترغیب پا چکے ہوتے ہیں کہ اس جرم کے بدلے میں عزت بھی دولت بھی اور جنت بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیوں یہ چلن رکے گا۔یہ تو بڑھے گا بھائ اور بڑھتا ہی جائے گا۔اس لیے کہ عالمی سامراج سے لے کہ ہمارے گماشتہ حکمرانوں تک یہی چاہتے ہیں کہ یہاں یہ کشت و خوں جاری رہے۔ورنہ تو لوگ سوال کریں گے بڑھتی ہوئ مہنگائی ،امارت و غربت کے درمیان فرق پہ لوگ چیئخیں گے پھر وہ چیخیں للکار بنیں گے اور غاصبوں کی حکمرانی کے پرخچے اڑادیں گے ۔لہذا جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ حوش کے ناخن لے گا اور اس اندازِ حکمرانی میں کوئی بنیادی تبدیلی اور سیکولر ازم و شہری آزادیوں کا تحفظ کرے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ یہ معرکہ بھی باشعور عوام کو ہی سر کرنا پڑے گا۔انقلابی دانشوروں/تنظیموں کو جدوجھد کرنا پڑے گی۔جیسے سندھی عوام ڈاکٹر شاہنواز کی شہادت کے خلاف نکلے ہیں اسی قسم کا عملا ردعمل دینا اور اس روایت کو مضبوط کرنا پڑے گا ۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی