اجتماعی اور انفرادی مزاحمت

  آج مورخہ 21 جنوری 2025لاہور میں ایک تھانیدار ایک موٹر مکینک کے ہاتھوں قتل ہو گیا سوشل میڈیا پہ ملزم کا جو بیان وائرل ہوا کے مطابق تھانیدار ،،ماں بہن کی گندی گالیاں دیتا تھا لہذا طیش میں اسی کی سرکاری پستول سے تھانیدار کو قتل کر دیا۔ تفتیش کے بعد شایدکوئی اور بات سامنے آئے۔ وہ بھی اگر اس ملزم کو پولیس مقابلے میں نہ مار دیا گیا۔سوشل میڈیا پہ اس واقعے کو ہیرو ازم کی صورت پیش کیا جارہا ہے ۔          یہ حقیقت بہرحال دوستوں کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس انفرادی ری ایکشن سے اس ظالمانہ سسٹم کو کچھ فرق نھیں پڑے گا جو ایسے بھیڑیا نما افسروں کو عوام کو کنٹرول کرنے ،دبانے کچلنے کے لیے ٹرینڈ اور پیدا کرتاہے۔        یہ انفرادی ردعمل غصے کا غیر شعوری شاید غیر انقلابی اظہار ہے۔اس سے جبر کے نظام کو مزید تقویت اور بہادر مظلوموں ،غریبوں کو عبرت کا نشان بنایا جاتاہے۔ اس انفرادی ردعمل کو اجتماعی صورت دینے کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف انقلابی خیالات سے ہی ممکن ہے۔ظلم سے نفرت کو انقلابی سیاسی دھارے میں بدلنے کی ضرورت ہے جو ظلم و ستم اور استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کردے۔سماج میں غصہ اور عدم برداشت اپنی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں جو تیزی سےانارکی کی طرف پیش قدمی کا واضح اظہار ہیں۔بھوک ننگ غربت بڑھتی مہنگائی مایوسی و بیروزگاری ،اور اظہار خیال پہ پابندیاں جلتی پہ تیل کا کام کررہی ہیں۔ انقلابی دانشور کارل مارکس نے سچ کہا تھا کہ سماج کے پاس دو ہی راستے ہیں سوشلزم یا انارکزم (تباہی) ۔پیدوار کا نراج اور پونجی اداروں کی آمریت(جبر) لوگوں کو ایسے ناگزیر نتائج والے تخریبی اسباب و کردار کی طرف دھکیلتا ہے۔جبکہ سوشلزم مظلوم طبقات کو ،محنت کشوں کو تعمیری و ترقی پسندانہ کردار کی ترغیب دیتا ہے۔انھیں طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتا ہے ،ذرائع پیدوار کی ترقی کو سماجی ترقی سے ہم آہنگ کرتا ہے۔چند سرمایہ داروں کے انفرادی منافعوں کی بجائے کروڑوں انسانوں کی ضروریات زندگی اور اجتماعی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوے پالیسیوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں محنت کش طبقے کی ترقی محنت کش طبقے کے اقتدار (سوشلزم)کے بغیر ممکن نھیں۔لہذا ایسی کاروائیاں سماج میں کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کرسکتیں ۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

اندھی طاقت کا نشہ

اندھی طاقت کا نشہ      اندھی طاقت کےنشے اور بدترین تکبر کا بیہودہ اظہار ۔اس سسٹم میں حکمرانی کی یہی شکل ہے یہی گڈ گورننس ہے یہی ایئن پہ عملدرآمد ہے یہی انصاف ہے۔کمزور جہاں غلطی کرتا نظر آۓ اسے کچل دو اور طاقتور جو بڑے سے بڑا بلنڈر کرے اس کے ساتھ مذاکرات کرو کچھ دینے دلانے کا معاملہ کرو اور بات ختم ۔ اسی لیے ہم کمیونسٹ ،ہم اشتراکیت کے داعی عوام کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس طبقے کا ذرائع پیداوار پہ ،دولت کے وسیلوں پہ قبضہ ہوگا اسی کے قبضے میں ریاستی اقتدار ہوگا اور پھر انھیں کی منشاء و مرضی کا نام قانون اور قانون کی حکمرانی ہوگا۔اگر نوے فیصد سے زیادہ لوگوں کو سماجی انصاف چاہیے ،معاشی مساوات چاہیے تو کمیونسٹوں کا ساتھ دینا پڑے گا۔اشتراکیت (سوشلزم)کو سمجھنا پڑے گا اور سوشلسٹ نظام قائم کرنا پڑے گا۔جس میں اقتدار اور ذرائع پیداوار کا کنٹرول محنت کش اکثریت کے اجتماع کے پاس ہو گا۔اور وہ عام آدمی کی فلاح و بہبود اور ان انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال ہو گا۔کیونکہ محنت کش طبقہ خود اختیار میں ہو گا۔جب تک اقتدار اور قوت محنت کش طبقے کے پاس نھیں ہوں گے محنت کشوں کے ساتھ یہ مظالم جاری رہیں گے۔ آؤ محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کی جدوجھد میں مزدور کسان پارٹی کا حصہ بنو ہمارا ساتھ دو ،محنت کش طبقے کا ساتھ دو ۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

سامراج مخالف تحریک کی ضرورت!

تحریر: کامریڈ عرفان علی    امریکہ و اسرائیل نے ویسے تو دنیا بھرکے عوام کو مگر خصوصاً مسلم ممالک کے عوام کو ڈس انفارمیشن کے جال میں اسی طرح پھنسا رکھا ہے جس طرح مسلم ممالک کی معیشت و سیاست کو۔ ابھی تازہ ترین کاروائیوں میں شام کی صورتحال اس کی ایک زندہ مثال ہے۔کہ اسرائیل نے فلسطین کی حمایتی شامی بشار الاسد کی حکومت کو گرایا،شام کی فوجی قوت کو تباہ کیا،شامی سماج میں انارکی پیدا کی اور ہمارے دائیں بازو کے دانشور و مذہبی رجیم کی اکثریت خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں ،،ہا ہا بشار الاسد کی آمریت تمام ہوئی اسی طرح جس طرح کل صدام حسین و قذافی حکومتوں کے خاتمے پہ بغلیں بجا رہے تھے،،۔     جب کہ حقیقت میں فلسطینی کاز،فلسطین کی آزادی کی جدوجھد تاریخ میں اتنی کبھی کمزور نھیں ہوئی جس قدر آج ہوئی ہے۔حماس و حزب اللہ کو ایک طرح سے بے یارو مددگار کردیا گیاہے ۔ایران کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔دنیا کے کم و بیش 58 اسلامی ممالک منہ تک رہے ہیں۔مگر اسرائیل دندناتا پھر رہا ہے۔کسی مست ہاتھی کی طرح مظلوم فلسطینیوں و شامیوں کو روندتا جارہاہے ۔اور ہماری فرقہ پرست سوچ کہہ رہی ہے کہ چلو وہ تو شعیہ تھا وہ تو فلاں تھا ۔مسلمانوں کی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ساتھ اس فرقہ وارانہ تقسیم،سایئنس و ٹیکنالوجی میں پسماندگی نے انھیں کہیں کا نھیں چھوڑا ۔اس ساری تباہی کےذمہ دار مسلم حکمران اور ان کے اتحادی مذہبی پیشوا و مذہبی سیاسی تنظیمیں ہیں۔دراصل وہ طبقہ ذمہ دار ہے جو اقتدار میں ہے جن کے مفادات کی سانجھ آمریکہ یورپ و اسرائیلی کمپنیوں سے ہے۔اور وہ قدر مشترک ہے سرمایہ داری نظام ۔ جو جو ملک بھی امریکی سامراج کے مخالف کیمپ میں تھوڑا سا ہوا یا سامراج مخالف پالیسی بنائی امریکی و اسرائیلی سامراج نے اس کے خلاف میڈیا کے طاقتور ہتھیار کو استعمال کیا،مسلمانوں سے ہی زرخرید مجاہدین کو خریدا ،فرقہ واریت کو ہوا دی اور مستحکم حکومتوں کو کمزور کیا اور خوفناک اٹیک کرتے ہوے پوری پوری سوسائٹی کو تباہ و برباد کردیا۔عراق افغانستان ،لیبیا،فلسطین کتنی لمبی لسٹ ہے امریکی و اسرائیلی بدمعاشیوں کی اور ان کے اتحادیوں کے مظالم کی ۔مگر ہمارے حکمران خصوصاً اور عوام عمومی طور پرابھی تک ان کی چالوں کو سمجھنے کے قابل نھیں ہو سکے۔ ضروری ہے کہ عوام کو سامراج مخالف بیانیہ تک محدود رکھنے کی بجائے حقیقی سامراج مخالف لڑائی و جدوجھد کے لیے تیار کیا جائے ۔جس کے لیے پھر لازم ہے کہ عوام کو انقلابی نظریات سے لیس کیا جاے،طبقاتی بنیادوں پہ منظم کیا جائے اور سامراج مخالف تحریک کو عالمی لیول پہ استوار کیا جاے۔جو اس وقت روس،چین،ایران ،شمالی کوریا وغیرہ کے مضبوط اتحاد سے ممکن ہے۔جو دانشور اس سادہ سی حقیقت کو سادگی سے سمجھنے کی بجائے خواہ مخواہ کی علمی موشگافیوں میں پڑکر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں وہ بھی دراصل چاہتے یا نہ چاہتے ہوے سامراج کی ہی مدد کر رہے ہیں کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

مدارس پہ حکومتی کنٹرول؟

تحریر :کامریڈ عرفان علی آج کل یہ بحث زور شور سے جاری ہے کہ مدارس کے حوالے سے حکومتی پالیسی میں تبدیلی یا حکومتی کنٹرول برداشت نھیں کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں حکومت کو ڈرایا دھمکایا بھی جارہا ہے کہ احتجاج ہوگا حکومت ہوش کے ناخن لے سوشل میڈیا پہ بھی مہم جاری ہے کہ خبردار مدارس کو نہ چھیڑنا ورنہ حشر بپا ہوگا۔      آیئے ذرا ایک اور نظر سے دیکھتے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ 1972 بھٹو دور کے تعلیمی اداروں کی نیشنلایئزشن پالیسی بہرحال ایک عوام دوست پالیسی تھی۔اور طبقاتی نظام تعلیم پہ کسی حد تک چوٹ تھی۔جس کے خلاف منافع پرست طبقے کو نوازتے ہوئے اب تک سینکڑوں نھیں ہزاروں سرکاری اسکول مختلف حیلے بہانوں ،اور پالیسیوں کے تحت عملاً پرائیویٹ کیے جا چکے ہیں ابھی کیے جارہے ہیں جو سراسر عوام دشمنی ہے۔مگر یہ مذہبی پیشوا و مذہبی جماعتیں حکومت کی اس پالیسی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے ۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ،تدریسی اسٹائل،سیلبیس نہایت پسماندہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری ڈگریوں کی دنیا میں کوئی وقعت نھیں ۔اس سرکاری چلن کو بدلنے کی ضرورت ہے جسے ایک بڑی عوامی تحریک ہی بدلنے پہ مجبور کر سکتی ہے۔مگر اس تجاہلِ عارفانہ کے باوجود بھی دینی مدارس کی بجائے ریاستی تعلیمی ادارے بہرحال بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ریاستی تعلیمی اداروں میں مدت ہوئی یونین سازی پہ پابندی یعنی طلباء کو اپنے حقوق کی جدوجھد کی اجازت نھیں جبکہ مذہبی پیشوا/مذہبی جماعتیں ان مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو اپنے مقاصد کے لیے ہمیشہ سیاست کا ایندھن بناتے أے ہیں۔یہ مذہبی ادارے ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم گہری کرتے ہیں۔ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان مدارس میں ان مذہبی جماعتوں مربعی و پیشواؤں کے اپنے بچے نھیں پڑھتے(ان کے بچے جدید تعلیمی اداروں میں اکثر مغربی ممالک سے تعلیم حاصل کرتے ہیں)جبکہ مزدوروں کسانوں یا غریبوں کے بچے ہی ان مدارس میں پڑھتے ہیں جنھیں عصر حاضر کی جدید تعلیم سے دور رکھتے ہوے اس زعم میں مبتلا کردیا جاتاہے کہ آپ کے پاس دین کا علم ہے آپ عالم ہو آپ،، اکرام،، ہو ،،فاضل،،ہو۔ پھر یہ کہ دنیاوی تعلیم کی کیا ضرورت ہے بلکہ یہاں تکہ کہ دنیاوی تعلیم تو بھٹکے ہوئے لوگوں کا کام ہے یہ تو سیکیولر ذہن پیدا کرتی ہے جو ایک طرح سے کفر ہے۔حالانکہ ہمارا سرکاری تعلیمی نظام بھی سیکولر ازم کی بجائے رجعت پسندی کو ہی فروغ دیتا ہے۔    مدارس کےان طلباء کومہتمم و فرقہ پرست جماعت کے لیے استعمال کرنے کی یہ روش سوسائٹی کو پسماندگی و انارکی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ہر مدرسہ اپنے فرقے کے نقطہء نظر کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے ہی حق پہ سمجھتا ہے ۔     مدارس بڑا واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ وہ اپنی پسند کی ریاست بنانا چاہتے ہیں لہذا جس ریاست سے رجسٹریشن کا سرٹیفیکیٹ لیتے ہیں اسی کے خلاف بچوں کی ذہن سازی کرتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہاں برسوں سے چھوٹے موٹے فسادات سے لیکر منظم دہشت گردانہ کارروائیوں کی صورت عوام و مختلف ادارے بھگت رہے ہیں ،ایک اندازے کے مطابق پچھلے چند برسوں میں نوے ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہاں کی حکمران اشرافیہ نے طے کر لیا تھا کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مذہبی جماعتوں کو عوام کے خلاف بہ طور ہتھیار استعمال کرنا ہے اور پھر جہاد افغانستان وہ آخری کیل ثابت ہوا کہ اب سوسائٹی انھیں کے رحم کرم پہ ہوگی۔ اور یہ مذہبی پیشوا و جماعتیں اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ عام آدمی بیچارہ کیاریاست کے طاقتور ترین ادارے بھی ان کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی بات ان کی اجارہ داری کے خلاف ہو،ریاست و جدید زمانے کی ضرورت ہو یہ خم ٹھونک کر میدان میں اتر آتے ہیں اور حکومتوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑھتی ہے۔اپ دنیا بھر کے اسلامی ممالک دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی اس طرح سے کھل کر کھیل کھیلنے کا موقع نھیں ملے گا جس طرح ان کے پاس پاکستان ایک جاگیر یا انکی اپنی اپنی سلطنت کی صورت موجود ہے۔یہاں تک کہ سعودی عرب میں بھی اس طرح کھلی چھوٹ نھیں ہے ۔مگر پاکستان ہے کہ یہاں قربانی کی کھالوں ،چوک چوراہوں ،دکانوں میں رکھے چندہ کے باکس،ملکی زرداروں ،اداروں کی مدد کے علاؤہ بھاری بین القوامی فنڈنگ اور غریب غرباء کے بچے ان کی قوت ہیں۔      اج پاکستان عالمی مسابقت کیا، اپنے ریجن میں بھی پسماندہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔صنعت و زراعت تباہ ہوچکی ہیں،بیروزگاری کا دور دوری ہے۔جس سے نکلنے کیلئے جدید علوم اور ٹیکنالوجی میں ترقی ضروری ہے مگر یہ جدید سوچوں کے مخالف ہیں۔یہاں سائنسدان و دانشور خوف کی فضا میں جیتے ہیں کہ کہیں کسی شر پسند کے ہاتھوں جان نہ گنوا بیٹھیں ۔یورپ اپنے پادریوں کو چرچ کی حد تک کنٹرول کرنے کے بعد ہی ڈارک ایج سے باہر نکل کر ترقی کرسکا۔اس میں بھی کوئی شک نھیں کہ یورپ کی ترقی کے پیچھے ایشیا و افریقہ کا استحصال بھی شامل ہے مگر انھیں اس منزل تک پہنچانے میں بہرحال جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کا نمایاں کردار ہے۔جب کہ ہم آج بھی پھونکوں سے دشمن کی تباہی کے خواب دیکھتے ہیں۔ساری اسلامی دنیا مل کر بھی ایک چھوٹے سے اسرائیل کی غنڈہ گردی،اور مظلوم فلسطینیوں کی خون ریزی کو نھیں روک سکتے تو وجہ معاشی و تعلیمی پسماندگی ،سایئنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پسماندگی ہے۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

سوشلسٹ کون ہیں؟

تحریر: کامریڈ عرفان علی جی سوشلسٹ وہ ہیں جو دنیا میں انصاف چاہتے ہیں،لابرابری ،سماجی اونچ نیچ ،طبقاتی نظام ،سود ،استحصال ،تعصب ،غربت،بھوک بیماری ،جہالت ،جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو منڈی کے لیے پیداوار کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل کے قائل ہیں،جو نیچر کو آنیوالی نسلوں کے لیے محفوظ چھوڑنا چاہتے ہیں۔جو فطرت سے جنگ نھیں بلکہ بقاء باہمی کے قائل ہیں۔جو فطرت کی عنایات کے بے دریغ ضیاع یعنی سرمایہ دارانہ استعمال کو غلط سمجھتے ہیں۔جو بندوق کی گولی اور توپ کے گولے کی بجائے انسانی زندگی کو بیماریوں سے محفوظ بنانے والی گولی (ٹیبلیٹ)کو اہمیت دیتے ہیں۔جو انسان کی اجتماعی جسمانی و روحانی نشوونما چاہتے ہیں کہ انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھاے۔قدرت کے اس انمول تحفے زندگی کو ،کائنات کے حسن کو ترقی دے۔جو افراتفری کی بجائے زندگی و معاشرے میں ڈسپلن پیدا کرے ۔انسان کے خصائل رذیلہ کو ختم کرے۔حرص و حوس،دھوکہ و مکاری،کینہ بغض و لالچ ،خود غرضی و خود فریبی،بزدلی و بے حسی،غرور و تکبر کا خاتمہ کرے۔جو سرمایہ پرستی کی خاصیت ہیں۔جی ہاں سوشلسٹ وہ ہیں جو انسان کے ہاتھوں انسان ،قوم کے ہاتھوں قوم،انسان کے ہاتھوں نیچر اور نیچر کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو مرد کے ہاتھوں عورت اور بچوں ،طاقتوروں کے ہاتھوں کمزوروں کے استحصال کے خلاف ہیں۔جو انسان کی لاکھوں سالوں سے حسرتوں ،خواہشوں،نیک تمناؤں ،اور احتیاجات کی تکمیل چاہتے ہیں۔جو دنیا سے محرومیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو انسان کی جنگلی نفسیات کی بجائے انسانی معاشرت والی فطرت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔جو مذہبوں ،فرقوں،نسلوں،ذاتوں،،زبانوں،علاقوں کے تعصبات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جو ساری دنیا کو ایک خاندان کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔جو حدوں،سرحدوں کی بجائے کل کائنات کو کل انسانیت کی میراث دیکھنا چاہتے ہیں۔تم ان پاکیزہ خیالات کو کفر سمجھو تو سمجھو ہم انھیں انسان کی نجات ، منزل و معراج سمجھتے ہیں۔ تمہاری سرمایہ داری و سامراجیت نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے اور ہم اسے انسانوں کے رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے انقلاب نھیں انقلابوں کی ضرورت ہے اور ہم اس مزدور انقلاب کا ایندھن بننے کو تیار ہیں۔جسے سوشلسٹ انقلاب کہتے ہیں جو کمیونزم کا پہلا مرحلہ ہے۔تو آو تحقیق کرو اور اگر یہ حقیقت تم پہ آشکار ہو جائے تو آؤ اس کے لیے جدوجھد شروع کرو۔ورنہ سامراجیت اپنی نیچر کے مطابق دنیا کو بھوک افلاس اور جنگوں میں مارتی رہے گی۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

سموگ کے طبقاتی اثرات! 

  تحریر: کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی سرمایہ دارانہ نظامِ میں سرمایہ داروں کے پاس تقریباً سب کچھ اور محنت کشوں کے پاس تقریباً کچھ نھیں ہوتا۔گھر، گاڑی تعلیم علاج معاشرے میں جئے جئے کار یہ سب زرداروں کی رسائی بلکہ اجارہ داری میں ہوتا ہے۔زردار مصیبت زدہ علاقوں کو پل بھر میں چھوڑ سکتے ہیں ،دوسرے ممالک جا سکتے ہیں جب کے محنت کشوں کا مقدر وہیں مصیبت و ابتلا گھرے رہ کرمرنا ہے۔محنت کش کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ دیگر حفاظتی لوازمات کہاں سے پورے کرے۔ ابھی آپ اس سموگ کو دیکھیں اس صورت احوال کی بڑی ذمہ داری بہرحال طبقہ اشرافیہ پہ بنتی ہے مگر اس سےمتاثر کروڑوں غریب ہوتے ہیں ۔سموگ و زہریلی ہوا سے بچنے کے لیے امراء اپنے گھروں میں چار چھ ہفتے بند ہو کر گزار سکتے ہیں،بیرون ممالک جا سکتے ہیں جیسے ہماری وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم غیر ملکی دورے پہ ہیں۔بہت سے ریٹائرڈ آفیسرز یورپ میں ہی سیٹل ہو جاتے ہیں کیونکہ اس ملک کو تو اس قابل چھوڑا نھیں کہ یہاں مستقل سکونت اختیار کی جاسکے۔اور جس پیڑھی نے اس ملک کے خزانوں پہ ابھی مزید ہاتھ صاف کرنے ہیں اور یہاں کہ محنت کشوں کی محنت کو لوٹنا ہے حکمرانی و عیش کے مزے لوٹنے ہیں وہ گھروں میں ایئر کلینر ٹائپ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ غریب مر رہے ہیں۔یہ طبقاتی نظام ہے جو کچھ لوگوں کو جدید ترین آسائشیں،سہولیات و ٹیکنالوجی تک رسائی دیتا ہے اور کروڑوں انسانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتا ہے،وہ کیا ایئر کلینر لے جس کا گھر ہی نھیں گھر ہے تو کھڑکیاں دروازے نھیں ۔کھڑکیاں دروازے ہوں تو جیب اجازت نہیں دیتی کہ روزگار نھیں ہے۔ایک تو تنگدستی ہے اوپر سے کم علمی ۔لہذا اس نظام کی جگہ ایک منصفانہ ،ایک منصوبہ بند معیشت پہ بنیاد رکھنے والا نظام چاہیے جو خلق خدا کو بلا تفریق ڈیلیور کرے۔اور اس اس نظام کو اشتراکیت (سوشلزم) کہتے ہیں۔یعنی تمام وسائل و ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت اور ریاست محنت کش عوام کے کنٹرول میں ہو۔ہر بالغ و صحت مندشخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق معاوضہ لے جب کہ تعلیم ،ریہائش،علاج،روزگار ریاست کی اولیں ذمہ داری ہو گی ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت!

تحریر: کامریڈ عرفان علی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں خوشیاں منانے والے پاکستانیوں کو اندازہ نھیں دنیا کیسے،کیوں معاشی بحرانوں کی زد میں ہے اور یہ کہ ٹرمپ کے سلوگن امریکی عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نھیں ہیں۔(بیشک سرمایہ دارانہ نظام لوگوں کو بیوقوف بنا کر ہی قایم رہتا ہے). حقیقت حال یہ ہے کہ دنیا کو بہرحال خوفناک جنگوں اور بحرانوں کا سامنا رہے گا کیونکہ سرمایہ داری نظام میں نراج و استحصال لازمی عوامل ہیں،ٹرمپ امریکی عوام کو معاشی بہتری نھیں دے سکتے باقی دنیا تو بہرحال مزید خوفناک پابندیوں ،سرد گرم جنگوں اور عصبیتوں کا شکار رہے گی۔ امریکہ چین روس تنازعات میں شدت پیدا ہو گی۔ٹرمپ انتظامیہ دنیا میں آپنی اجارہ داری و سامراجیت کے خونی پنجے مزید قوت سے گاڑے گی۔یعنی یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی مانِند اب کی بار بھی انتخابی نعروں کو جیت کے ساتھ ہی بھلا کر روایتی تسلط و طبقاتی مفادات کے لیے ہی گھناؤنی سامراجی پالیسیاں بنیں گی اور جاری رہیں گی۔جن سے نہ تو امریکی محنت کش عوام کو اور نہ ہی دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً ترقی پذیر ممالک کو ریلیف ملے گا۔ لہٰذا جو پاکستانی ٹرمپ کی جیت کو اپنی جیت سمجھ رہے ہیں وہ نہایت خوش فہمی کا شکار ہیں۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کو چین روس اور دیگر ہمسایوں کے خلاف استعمال کرنے پہ مجبور کیا جاے اور ہماری حکمران اشرافیہ کافی کچھ کرنے کو تیار بھی ہو جائے گی۔مگر یہ ضروری نھیں کہ امریکی اجارہ داری مزید بڑھے۔امریکہ کا عالمی سیاست و معیشت میں اپنا کردار و حصہ بڑھانے کی کوشش پاگل پن کی انتہا ہو گی مگر آگے بڑھنا نہایت مشکل جب کہ پیچھے ہٹنا اسے گوارا نھیں ہوگا اسی کشمکش سے دنیا میں نئی انقلابی لہریں اٹھیں گی ۔ دنیا انقلابوں کی دہلیز پہ کھڑی ہے بے شک،، ایک چنگاری پورے گیاہستان کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے،،۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لئے،،

تحریر: کامریڈ عرفان علی کم از کم پچیس چھبیس سال تک ماں باپ اپنی بیٹی کو تعلیم کی غرض سے گھر بٹھاتے ہیں اس پہ پیسے خرچ کرتے ہیں اس کی گزرتی عمر سمیت ہزاروں قسم کے خدشات ،ٹینشنوں کی اذیت برداشت کرتے ہیں۔اس لڑکی کے بچپن اور جوانی کے ہزاروں حسیں دن ،ہزاروں سپنے قربان ہوتے ہیں۔ تب جا کر والدین کے خوابوں کو تعبیر ملتی ہے اور وہ لڑکی ڈاکٹر بن کرتمہاری بہو رانی کا ڈیلیوری (زچگی)کا آپریشن کرنے کے قابل بنتی ہے شاید تمہاری بہو رانی تب تک پانچواں بچہ پیدا کر چکی ہو۔تمہاری بہو رانی کے بیٹی بیٹے کو پڑھانے کے قابل یعنی معاشرے کا ایک مفید شہری بنتی ہے،اپنی امنگوں کو جلا کر اندھیروں میں روشنی کرتی ہے تاکہ نسل انسانی کو جینے کا ڈھنگ ،منزل کا پتہ اورفلاح کا راستہ ملے۔اور انھیں حالات میں تم جھوم جھوم کے کہتے(گاتے )ہو،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لئے گھر پردے وچ بٹھا لئے ،گھر پردے وچ بٹھا لئےاوتھے ڈانس کر دی پئی آے،، ذرا سوچو اگر بیٹیوں کو نہ پڑھایا جائے تو کون تمہاری بہو رانی کا آپریشن کرے گا۔جو بچے وہ ہر سال پیدا کررہی ہےان بچوں خاص کر بچیوں کو کون پڑھائے گا،کون حفاظتی ٹیکے لگائے گا؟ مگر سوچنے کے لیے بہرحال ایک عدد نارمل دماغ کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے تمہارے بچپن میں ہی تم سے کہیں چھین لیا گیا تھا اور اس کی جگہ ایک ،،پروگرامنڈ روبوٹ ،،بھیجے میں فٹ کردیا گیا۔اس لیے کہ مقتدرہ کی ضرورت روبوٹس تھے جو آرڈرز کی تعمیل کریں دماغ تو سؤال اٹھاتے ہیں ایسے سوالات کے جن کا جواب حاکموں کی نیندیں اڑا دے ان کی عیاشیوں کے تاج محل ہلا کر رکھ دے لہذا سوالات سے بچنا ضروری ہے اگر اپنی لوٹ مار کو ،اپنی اجارہ داری کو ،استحصالی نظام کو قائم دائم رکھنا ہے۔تو پھر روبوٹس پیدا کرو ،روبوٹس پیدا نھیں ہوتے بنانا پڑتے ہیں لہذا روبوٹس بناؤ ،لاکھوں کروڑوں روبوٹس بناو۔ ہاں ان روبوٹس کے درمیان اگر کوئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والا دماغ بدقسمتی سے پیدا ہو جاے،تمہارے روبوٹک سسٹم سے آؤٹ ہو جاے،تمہارے سگنل قبول کرنے کی بجائے قدرت کا عطیہ دماغ استعمال کرےتو باقی روبوٹس مل کر اسے قتل کردیں۔اور تمہارے نظام پہ ،تمہاری ریپوٹیشن پہ بھی کوئی حرف نھیں اے گا۔ لہذا روبوٹس پہ انویسٹمنٹ کرو یہ فائدے کی چیز ہیں۔پھراس طرح کے پچھڑے ہوے نمونوں کو سوسائٹی میں قبول عام پانے میں مدد دو تاکہ وہ ہزاروں سکول بموں سے اڑا دیں تب بھی لوگ کہتے رہیں کہ نھیں جی یہ تو کسی دشمن کی سازش ہے یعنی ان روبوٹس پہ کوئ انگلی نھیں اٹھنی چاہیے!کیونکہ روبوٹس آخر اس نظام کہنہ کی بقا کے ضامن ہیں۔خوں کے وہ دھبے جو حاکموں کے دامن پہ لگے تھے وہ روبوٹس کس صفائی سے واش کرتے ہیں۔جیسے پورے حکمران طبقے کو ڈرائی کلین کردیا ہو۔اور خون ناحق پہ یا توکوئی بولنے والا نہ ہو یا پھر اس کے پاس کوئی ثبوت ہی نہ بچے۔سماج کی تشکیل ایسے ہو یعنی سوسائٹی ایسا روپ دھار چکی ہو کہ جہاں روبوٹس ہی قتل کریں،روبوٹس ہی گواہ بنیں،روبوٹس ہی عدل کریں۔ تو لگے رہو منےبھیا، شاباش لگے رہو ان کے پیچھے اگلی کئی پشتوں کے جاہل رکھنے کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔علم اور خاص کر وہ جس کی بابت بلھے شاہ نے کہا تھا ،،اساں پڑھیا علم تحقیقی اے،،اگر کوئی ایسی غلطی کرے تو اسے مارنے کا پورا پورا بندوبست ہو چکا ہےتم بس جھوموں گاؤ ،،توں دھی نوں سکولوں ہٹا لیے، گھر پردے وچ بٹھا لئے،گھر پردے وچ بٹھا لئے اوتھے ڈانس کردی پئی اے،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

روس میں برکس کا اجلاس

تحریر: کامریڈ عرفان علی شنگھائی تعاون تنظیم کے بعد روس میں برکس کا اجلاس روس کے شہر کازان میں جاری ہےجس میں آپسی تجارت اور لین دین کو ڈالر کے مقابلے میں یوآن وغیرہ جیسی کرنسی میں کرنے کی طرف پیش رفت بھی ممکن ہے۔ اسرایئلی بربریت کے خلاف بھی واضح موقف اپنایا گیا۔ عالمی سیاست میں زبردست تبدیلیاں اور تضادات کھل کر واضح ہو رہے ہیں۔دنیا میں امریکی سامراج کے مقابلے میں برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے ادارے امید کی کرن ہیں۔ کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی

ہشت نگر کو سلام

ٹحریر: کامریڈ عرفان علی ہشت نگر کے ساتھیوں کی کمٹ منٹ کو سرخ سلام! مزدور کسان پارٹی ہشت نگر کے تمام کارکنان و رہنماؤں کو اس کامیاب جلسے کے انعقاد پر مبارکباد ۔یہ جلسہ جہاں بہت کامیاب تھا وہیں کیئ حوالوں سے نیئ روایات کا امیں بھی تھا۔ہشت نگر کہ جہاں کی خواتین (خصوصاً کسان فیملیز کی خواتین)کاجلسوں میں جانا نہایت معیوب سمجھا جاتا رہا ہے۔وہاں مزدور کسان پارٹی کے چیئرمین کی خصوصی کاوشوں سے عورتوں کے سیاسی رول کو قبول کرنے اور اسے محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ کی ایک ناگزیر ضرورت و قوت سمجھتے ہوے یہ موقع دیا گیا کہ وہ جلسہ گاہِ آیئں اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ جلسہ کی کامیابی میں یعنی مزدور کسان پارٹی کی بڑھوتری میں اپنا کردار ادا کریں جس پہ وہاں کی بہادر خواتین نے لبیک کہا۔سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ہمت ہمارے شہروں میں بسنے والے کامریڈز کی اکثریت کو بھی نھیں ہوتی کہ وہ اپنی خواتین کو جدوجھد میں شانہ بشانہ لیکر چلیں ۔لہذا یہ ہشت نگر پارٹی کی ایک مزید خاص اچیومنٹ ہے جسے نظر انداز نھیں کیا جانا چاہیے بلکہ رول ماڈل کے طور پہ اس کا احترام کرتے ہوے اسے اپنانا چاہیے ۔اس جلسے میں نوجوانوں کا ذمہ دارنہ جوش و جذبہ،ہزاروں افراد کے اس جلسے میں مقررین کی بات سنتے ہوے یوں سناٹا چھا جاتا کہ جیسے یہاں کوئ موجود ہی نہ ہو ،مجال ہے کوئ آپس میں ،،چرچر ،،کرے بلکہ پوری توجہ اور انہماک سے ہر مقرر کی گفتگو سنی گیئ۔سالار فیاض علی چئیرمن مزدور کسان پارٹی کے نام کے پشتو زبان میں نغمے ایک مجاہدانہ سرور و کیف کی مستی کا ماحول پیدا کررہے تھے۔پنڈال میں سرخ جھنڈے اورمزدور کسان پارٹی زندہ باد کے فلک شگاف نعرے شرکاء کی پارٹی سے محبت کا خوبصورت اظہار کررہے تھے۔کامریڈ سپرلے کی ہدایات کے مطابق سیکیورٹی و انتطامات نہایت احسن انداز میں نبھاے گیے،سالار امجد علی ،سالار فیاض علی اور کامریڈ تیمور رحمان سمیت کچھ دیگر سینئر ساتھی مہمانوں کا استقبال کرتے رہے اور پھر سٹیج سے مخصوص تقاریر ہویئں۔لاہور سے آل پاکستان ٹریڈ یونین کی رہنما محترمہ روبینہ جمیل صاحبہ،ناصر گلزار چوہدری صاحب اور کامریڈ رفاقت آزاد سمیت مقامی رہنما سٹیج کی زینت رہے ۔ ہر کارکن ایک شاندار ذمہ داری کا مظاہرہ کررہا تھا۔ہشت نگر کے ان بہادر ساتھیوں خصوصاً سالار فیاض علی کی کمٹمنٹ کو سرخ سلام اور کامیاب جلسہ کے انعقاد پہ مبارکباد! کامریڈ عرفان علی لیبر سیکرٹری مزدور کسان پارٹی