سرکاری یا نجکاری

قلم نگار: نادر علی شاہ سرکاری مطلب پبلک یا عوامی مطلب ایک خاص معاشرے کے باسیوں کی مشترکہ یعنی کہ سب کی۔ کوئی بھی سرکار ، حکومت یا ریاست جب اپنے شہریوں سے ٹیکس یا محصول اکٹھا کرتی ہیں تو اس کے بعد ریاست پر کچھ ذمہ داریاں لاگو ہوتی ہیں جو ریاست نے ہر حال میں نبھانا ہوتی ہیں اگر ریاست ان ذمہ داریوں سے منہ موڑ لے اور اپنی رعایا کو منافع خوری کا دھندہ کرنے والوں کے سپرد کر دے تو ایسی ریاست کو محصول وصول کرنے کا بھی کوئی حق نہیں بنتا۔ ریاست ٹیکس اس لیے لگاتی ہے تاکہ اپنے شہریوں کو مفت تعلیم، صحت، روزگار، رہائش اور معاشرتی انصاف مہیا کر سکے۔ لیکن اگر ریاست اپنے فرائض ادا کرنے کے بجائے سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے اپنے شہریوں پر مزید معاشی بوجھ ڈال دے تو ایسی ریاست کے وجود پر سوالات اٹھنا بنتے ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا نوے فیصد(جو تعلیم، صحت اور رہائش سے محروم ہے) پہلے ہی خط غربت سے نیچے اپنی زندگی گزار رہا ہے جو اس قدر معاشی دباؤ کا شکار ہے کہ اپنے چولہے کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں، مفت تعلیم اور صحت ان کے لیے ایک آسرا ہے ۔ اگر ریاست یہ آسرا بھی چھین کر ان منافع خور نجی مالکان کے حوالے کرنا چاہتی ہے تو یہ ریاست نہ ہوئی بلکہ وہ سانپ ہوئی جو اپنے بچے خود کھا جاتی ہے۔ اب اگر بات کریں نجکاری یا پرائیویٹ کی تو مطلب نجی یا ذاتی یعنی کہ کسی ایک شخص یا گروپ کی۔ نجکاری کا عام مفہوم یہ ہوا کہ جو چیز، زمین یا ادارہ سب کا تھا اور مفت تھا وہ اب کسی ایک فرد یا گروپ کا ہے اور مفت نہیں ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عوامی خدمت اور فلاح وبہبود کے ادارے نجی ملکیت میں دے دئیے جائیں اور پھر ان نجی مالکان کے زیر نگرانی یہ ادارے خدمت اور فلاح وبہبود کی جگہ صرف اور صرف منافع کی آماجگاہیں بن جائیں۔ خداوند تعالیٰ نے چار چیزوں کو جس میں ( ہوا، روشنی یا آگ، پانی اور مٹی یا زمین) سب انسانوں کے لیے مشترک پیدا فرمایا ہے، اب یہاں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام نعمتوں کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کرے۔ یہ چار چیزیں ہی پیداواری عمل میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب یہاں سمجھنے والی بات یہ ہےکہ اگر پیداواری ادارے جو اشیاء اور خدمات کو پیدا کر رہیں ہیں ریاست کے زیرِ انتظام میں ہوں گی تو اس کا فائدہ بھی ہر کسی کو ہوگا لیکن اگر یہ پیداواری ادارے صرف نجی ملکیت میں چلے گئے تو اس کا فائدہ بھی صرف مخصوص افراد اور گروہوں کو ہوگا۔ پیداوار برائے منافع کی بجائے پیداوار برائے استعمال ہوگی تو اس سے عام شہریوں کا فائدہ ہوگا۔ نجی مالکان کے ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کے زریعے منافع کو بڑھانے کا عمل ممکن نہیں ہوگا۔ نجکاری میں پیداوار کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے منافع جبکہ یہی منافع ارتکاز دولت کا موجب بنتا ہے مطلب کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے۔ اسی لیے نجی سرمایہ کاری اور دولت و ثروت کے ارتکاز کو روکنے کے لیے اداروں کا قومی ملکیت میں ہونے سے بہتر کوئی حل نہیں۔ لیکن یہ علاج تجویز کرنے سے پہلے قومی ملکیت کے معنی و مفہوم کا تعین کر لینا ضروری ہے۔ اگر قومی ملکیت کے یہ معنی ہیں کہ سرکاری اداروں کی بڑی بڑی کارپوریشنیں بنا کر کسی ریٹائرڈ سی ایس ایس یا فوجی افسر کو لاکھوں روپے ماھانہ تنخواہ پر چیئرمین بنا دیا جائے تو ظاہر ہے اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اور بھی پیچیدہ ہو جائے گا۔ اس وقت جو صنعتیں پبلک سیکٹر میں شامل ہیں ان کی نااہلی، نالایکی اور نا پیداکاری اپنی مثال آپ ہے۔ اشتراکی ممالک میں سرکاری اداروں اور کارخانوں کو ریٹائرڈ سرکاری افسروں کی تحویل میں دینے کی بجائے ایک آزادانہ اور خود مختار سروس کے سپرد کیے جاتے ہیں جو ہر ادارے اور کارخانے میں ملازموں اور انتظامیہ کی مشترک کمیٹیاں مقرر کرتی ہیں اور تمام کاروبار اور کاروائیوں کو انہی کے مشورہ و رائے سے چلایا جاتا ہے۔ اشتراکی ممالک جہاں ادارے ریاستی تصرف میں ہوتے ہیں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے تو ایسی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں یہ تجربہ کامیاب نہ ہو۔ ہمارے ساتھ سازش کے تحت ایک ظلم یہ بھی ہوا ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں جانتے بوجھتے ذوالفقار علی بھٹو کے قومی ملکیت کے اقدام کو تمام معاشی مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا اور اب تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے اور ساتھ ہی ساتھ سرمایہ کار سیاستدان بھی اس بات کو مزید ہوا دیتے رہتے ہیں اور پاکستان کے تمام مسائل کو سرکاری اداروں سے جوڑتے رہتے ہیں اور ہمیشہ یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قومی اداروں کی بقا صرف نجکاری میں ہے۔ جبکہ ان باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بھٹو کی قومی ملکیت کے اقدام سے 1972 میں پاکستان کی معیشت میں بوسٹ آیا تھا اور شرح نمو چھے فیصد سے زیادہ تھی۔ 1973 میں معاشی کسادبازاری کی وجہ قومی ملکیت نہیں بلکہ بین الاقوامی معاشی بحران تھا جس سے تمام ممالک اثر انداز ہوئے تھے۔ اس بین الاقوامی معاشی کسادبازاری کی وجہ عرب اسرائیل جنگ تھی جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سو ڈالر سے بھی زائد اضافہ تھا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے دنیا بھر میں ایک معاشی بحران پیدا کر دیا جس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا۔ اس کے ساتھ اسی سال پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب آئے جس نے پاکستان کی معاشی طور پر کمر توڑدی۔ جانبدار مبصرین کا ایک خیال ہے کہ بھٹو کی قومی ملکیت کے اقدام نے ہمارے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی ترقی کے راستے میں بند باندھ دیا، نہیں تو آج پاکستان میں بھی سینکڑوں امبانی اور اڈانی ہوتے۔ ان دوستوں سے سوال یہ ہے کہ امبانی اور اڈانی نے انڈیا کی پچاس فیصد آبادی جوکہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ان میں اڑھائی کروڑ ایسے لوگ

تعلیم بچاؤ ، پاکستان بچاؤ 

قلم نگار: نادر علی شاہ جب ہم ریاست کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ہمیشہ یہی بتایا جاتا ہے کہ ریاست کا وہی کردار ہے جو ایک ماں کا اپنے بچوں کی پرورش اور نشوونما میں ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم ریاست کو عام لوگوں کے ساتھ ناانصافیوں، ظلم وجبر، حق تلفیوں کو دیکھتے ہیں اور دوسری جانب ایک مخصوص طبقے کے مفادات کی حفاظت پر معمور دیکھتے ہیں تو ریاست کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے۔ ریاست جب سرمایہ کاروں، جاگیر داروں، مفاد پرست سیاست دانوں، اشرافیہ اور ایک مخصوص ادارے کی بغل بچہ بن جائے اور عام محکوم لوگوں کے لیے ایک ڈائن نما ماں بن جائے تو پھر ان محکوم اور استحصال زدہ لوگوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے زبان بلند میں نعرہ حق لگانا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ ایک ریاست جو کہ سڑک کے کنارے لیٹے ہوئے آدمی، جھونپڑی میں بسنے والے خاندان، کھیت کھلیانوں میں جانوروں کے ساتھ مٹی میں لتھڑے ہوئے کسان، کوئلے کی کانوں میں کام کرتے ہوئے مزدور اور سکولوں، ہسپتالوں فیکٹریوں، دفتروں اور ملک کے کونے کونے میں رہنے والے اور کام کرنے والوں سے ہر چیز اور خدمت کی خریدوفروخت پر بلا واسطہ ٹیکس کی صورت میں ایک ایک پیسہ وصول کر رہی ہے۔ ٹیکس وہ معاوضہ ہے جو ریاست عوام کو دی جانے والی سہولیات یا ذمہ داریوں کے عوض وصول کرتی ہے۔ اب سہولیات کی بات کی جائے تو تعلیم ، صحت ، روزگار ، رہائش ، معاشرتی انصاف، پانی، انفراسٹرکچر اور عزت نفس اس میں شامل ہوتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاست اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سر انجام دے رہی یا نہیں۔ اس حوالے سے ہم سب سے پہلے تعلیم پر بات کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے گے کہ آیا ریاست اس بنیادی ستون کو مضبوط کرنے اور اس کی فراہمی میں کس قدر سرگرم ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی و خوشحالی میں تعلیم یافتہ افراد کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد شعبہ ہے جس سے باقی تمام شعبے معرضِ وجود میں آتے ہیں اس لیے اس شعبہ کی اہمیت وافادیت سے انکاری معاشرے اور ریاستیں ترقی و خوشحالی کی خوشبو سے بھی ناواقف ہی رہیں گے۔ سب سے پہلے ہم پاکستان کے تعلیمی انحطاط کے شکار تعلیمی نظام سے منسلک کچھ حقیقی اعداد و شمار پر بات کر لیں، اس وقت اڑھائی کروڑ بچہ جو کہ سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہے وہ سکولوں سے باہر، کسی نہ کسی ورکشاپ، قحبہ خانے، ہوٹلوں، بھٹوں،زمینوں اور گدا گری کرتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ تین کروڑ بچہ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جا رہا ہے جس میں سے دو کروڑ بچے نجی تعلیمی اداروں میں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ایک کروڑ بچے انتہائی کم سہولیات کے ساتھ سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں ۔ ان اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ اڑھائی کروڑ بچہ جو سکولوں سے باہر ہے، ریاست کا ان کے ساتھ کیا بیر ہے، کیا ریاست ان کی ماں نہیں؟ دوسرا سوال ریاست نے ان اڑھائی کروڑ بچوں کے والدین کے لیے اتنا روزگار پیدا کیوں نہیں کیا جس سے ان کے والدین آسانی سے تعلیمی معاملات کو سر انجام دے پاتے؟ تیسرا سوال جو پہلے دونوں سے بھی اہم ہے اگر یہ اڑھائی کروڑ بچہ بھی سکولوں میں آ جاتا ہے تو کیا ریاست کے پاس اتنے وسائل اور کیپاسٹی ہے کہ ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ جواب ہے نہیں۔ نہیں کیوں؟ کیوں کہ ریاست بالعموم پچھلی دو دہائیوں اور بالخصوص حالیہ دو برسوں سے پہلے سے موجود سکولوں کو نجی ملکیت میں شفٹ کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں تاکہ جو ایک کروڑ بچہ سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ بھی اس حق سے محروم ہو جائے۔ حالیہ کچھ مہینوں میں اکیس ہزار سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ آپ سوچیں تو سہی ذرا، اڑھائی کروڑ بچہ جو سکولوں سے باہر ہے بنیادی تعلیم سے محروم ہے ریاست ان کی تعلیم کا انتظام و انصرام کرنے کے بجائے جو ایک کروڑ بچہ سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے ان کے تعلیمی عمل کو بھی نجی مالکان کے سپرد کر کے داؤ پر لگا رہا ہے۔ صرف پنجاب میں سوا لاکھ سیٹیں خالی پڑی ہیں جن پر فوری بھرتی کی ضرورت ہے۔ کچھ دوست جو اس ریاستی جبر کو غیر سنجیدگی سے لے رہیں ہیں وہ خواب غفلت میں سے نکلیں کیوں کہ پہلے پہل تو ریاست اور اس پالیسی بنانے والے سرکاری سکولوں کو نجی ملکیت میں دیتے ہوئے ہر بچے کی ایک مخصوص رقم پرائیویٹ مالکان کو ادا کرے گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد ریاست اس کو اپنے بجٹ کی بحثوں میں قومی خزانے پر بوجھ ثابت کرکے اس ادائیگی کو بھی ختم کر دے گی۔ دوستوں اگر آج اس پرائیویٹائزیشن کے عمل کے آگے بند نا باندھا گیا تو سرکاری ملازمین کے ساتھ عام لوگ اپنے بچوں کی مفت تعلیم سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ سرکاری کا مطلب ہے پبلک کی مطلب عام لوگوں کی سب کی۔ جب کہ پرائیویٹ کا مطلب ہے نجی یا ذاتی مطلب کسی ایک فرد کی۔ تو آپ فیصلہ کر لو بنیادی حقوق کو جس میں تعلیم بھی ہے اس کو پبلک رکھنا ہے یا کسی کی ذاتی جاگیر بنتے دیکھتے رہنا ہے۔ اب آپ لوگ بتائیں ریاست سب کا جو ہے اسے کسی ایک کو دینے جا رہی ہے، تو اب ریاست ماں ہوئی یا ڈائن؟ اب دوسرے پہلو کی جانب چلتے ہیں ایک طرف تو بچوں کے تعلیمی مستقبل کو مکمل طور پر داؤ پر لگا دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سرکاری ملازمین کی بھرتیوں پر مکمل طور پر پابندی ہے۔ پنجاب میں تقریباً سوا لاکھ کے قریب سیٹیں خالی پڑی ہیں جن پر بھرتی کی اشد ضرورت ہے۔ پینشن ترامیم کر کے پنجاب میں ملازم کی بیوہ کو دس سال تک پینشن دی جائے گی جو اس سے پہلے تا حیات تھی۔ بیوہ بیٹی