بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ
تحریر: قیوم نظامی وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہےـ اس کے مطابق ملک کے اندر امن و امان کی صورتحال مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا گیاـ اعلامیہ کے مطابق چیلنجز سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے متحدہ سیاسی آواز اور مربوط قومی بیانے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ـ اس بات پر زور دیا گیا کہ "عزم استحکام” کے فریم ورک کے تحت قومی انسداد دہشت گردی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی حمایت اور مکمل قومی اتفاق رائے بہت ضروری ہے ـ اعلامیہ کے مطابق ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی ـ ایپکس کمیٹی کا بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ طویل عرصے سے بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری ہے ـ ایپکس کمیٹی کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ فوجی آپریشن کی کامیابی کے لیے قومی اتفاق رائے ضروری ہے ـ اگر حکمران قومی اتفاق رائے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ان کو بلوچستان میں طویل آپریشنز کا غیر جانبدار تجزیہ پاکستانی قوم کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ ان کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کے مثبت نتائج برامد ہو رہے ہیں ـ پاکستان کے عوام کے لیے یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ بلوچستان میں آئے دن معصوم شہریوں جن میں محنت کش کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور کاریگر انجینیئرز ٹرک ڈرائیور اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے معصوم شہری دہشت گردی کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں ـ کوئٹہ میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ انتہائی المناک اور افسوسناک ہےـ علیحدگی پسند تنظیمیں محنت کش افراد پر حملے کرکے اپنے ہی طبقے کو کمزور کر رہی ہیں ان کا ٹارگٹ مظلوم نہیں بلکہ ظالم لٹیرے ہو نے چاہئیں ـ سیاسی معاشی اور سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں طویل عرصے سے پائی جانے والی احساس محرومی سے فائدہ اٹھا رہی ہیں ـ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے عوام آج بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پسماندہ ہیں اس صوبے میں تعلیم کی شرح سب سے کم ہے ـ بلوچستان کے عوام کو سماجی انصاف اور مساوی مواقع میسر نہیں ہیں ـ سوال یہ ہے کہ کیا قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر مایوسی اور احساس محرومی کو ختم کیا جا سکتا ہے ـ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے باوجود عوام کے احساس محرومی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ ان کے صوبائی وسائل کی لوٹ مار آج بھی جاری ہے ـ پاکستان کی ہر وفاقی حکومت بلوچستان میں اپنا مقدمہ عوام کے سامنے دلیل کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر رہی ہے ـ بلوچستان میں جو ترقی ہو رہی ہے پاکستان کا میڈیا حیران کن طور پر اس کو عوام کے سامنے نہیں لا رہا ـ وفاقی حکومت اس سلسلے میں بھی نااہلی اور ناکامی کا شکار ہے ـ اگر پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر کرے تو بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کو کافی حد تک کم بھی کیا جا سکتا ہے ـ باوثوق ذرائع کے مطابق بلوچستان کے سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جو قوم پرست لیڈر ہیں انہوں نے علیحدگی پسندوں سے سنجیدہ مذاکرات کی پوری کوشش کی تھی مگر طاقتور حلقوں نے ان کی ان کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا ـ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے حجم اور سائز کو برقرار رکھنے کے لیے کشمیر کارڈ کے بعد اب بلوچستان کارڈ کی ضرورت ہے ـ بلوچستان کی صورتحال اس قدر کشیدہ ہو گئی ہے کہ پاکستان کے آئینی نظام کو تسلیم کرنے والے بلوچ لیڈر اختر مینگل عاجز آ کر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ـ وفاقی حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے جس شرمناک طریقے سے اختر مینگل کی جماعت کے سینیٹروں کو توڑا ہے کیا اس کے بعد آئین اور جمہوریت پر بلوچ عوام کا اعتماد مزید متزلزل اور ان کےاحساس محرومی میں اضافہ نہیں ہو گا ـ ایسے اقدامات کے بعد پاکستان اور بلوچستان کے عوام کو علیحدگی پسند دہشت گردوں کے خلاف کیسے متحد کیا جا سکتا ہے ـ حیران کن امر یہ ہے کہ اب یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے مڈل کلاس کے طالب علم بھی علیحدگی پسند تنظیموں سے منسلک ہو رہے ہیں جو وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے ـ سی پیک منصوبے کے مرکز اور منسلک شہر گوادر کی حالت زار کا سلسلہ جاری اور ساری ہے ـ ایک سروے کے مطابق گوادر کے صرف 21 فیصد بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے گئے ہیں ـ 25 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں 46 فیصد بچیاں ہیں ـ گوادر کے 50 فیصد سکولوں میں پانی اور ٹوائلٹ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ـ صرف پانچ فیصد مکانات پختہ ہیں جبکہ باقی سب مکانات کچی مٹی سے بنائے گئے ہیں ـ صرف 18 فیصد گھروں کو سوئی گیس کی سہولت حاصل ہے جبکہ باقی سب لکڑیاں جلا کر اور تیل استعمال کر کے کھانا تیار کرتے ہیں ـ گوادر کے شہریوں کی اکثریت سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر گزارا کرتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ان کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے مناسب سہولتیں بھی فراہم نہیں کی گئیں بلکہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں ـ گوادر کے ملحقہ ممالک سے لوگ جدید مشینری لے کر آتے ہیں اور مچھلیاں پکڑ کر لے جاتے ہیں ـ گوادر کی ملحقہ زمینوں پر گوادر سے باہر سے آئے ہوئے لوگ قبضے کر رہے ہیں اور اربوں روپے کما رہے ہیں ـ گوادر کے نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے لیے تربیتی مرکز بھی قائم نہیں کیے گئے ـ گوادر کے شہریوں اور ریاست کے درمیان عدم اعتماد کی فضا مستحکم ہو چکی ہے ـ گوادر کے عوام نے کئی بار "حق دو تحریک” کے نام سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا مگر ہر مرتبہ اسے