لیڈرز : الفاظ اور اعمال
تحریر: قیوم نظامی لیڈرز کے الفاظ اور اعمال میں مطابقت اور تضادات پر نظر رکھنا ہر عہد کی نسل کا فرض اولین ہونا چاہیے – قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان پاکستان کے دو عظیم لیڈرز تھے جن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا ہم ان پر فخر کرتے ہیں ـ قائد اعظم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ میرے سیاسی مخالفین ہمیشہ عوام کو خوش کرنے کے لیے تقریریں کرتے ہیں مگر میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں عوام کی درست رہنمائی کروں چنانچہ وقت گزرنے کے بعد میرے سیاسی مخالفین کی باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں جب کہ میری باتیں جو میرے ضمیر کے مطابق اور عوام کے مفاد میں ہوتی ہیں وہ سچ ثابت ہوتی ہیں ـ ایک اور موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیں عوام کو ہمیشہ سچ بتانا چاہیے جب ہم عوام کو اعتماد میں لے کر سچ بتاتے ہیں تو ہمارے لیے بڑی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں اور عوام اعتماد کرتے ہوئےتعاون کرتے ہیں ـ شاعر مشرق علامہ اقبال مفکر اور لیڈر تھے ان کے الفاظ اور اعمال میں کوئی تفاوت نہیں ہوتا تھا انہوں نے اپنے ایک خوبصورت شعر میں کہا تھا- اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند اقبال نے طنزیہ لہجے میں گفتار اور کردار کے تضاد کو اپنے اس شعر میں بیان کیا – اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا عمل اور کردار میں تسلسل عظیم لیڈر کی بڑی خوبی ہوتی ہے-چرچل نے 13 مئی 1940 کو ہاؤس آف کامنز میں خطاب کرتے ہوئے عہد کیا کہ” وہ نازی جرمنی کا مقابلہ کرے گا- میرے پاس خون محنت آنسو اور پسینہ پیش کرنے کے علاؤہ اور کچھ نہیں ہے-ہم ہر قیمت پر اپنی سر زمین کا دفاع کریں گے- ہم اپنے ساحلوں پر زمینوں پر کھیتوں پر پہاڑوں اور گلیوں میں جنگ کریں گے اور کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے”- چرچل نے اپنے ان الفاظ پر عمل کیا اور جنگ جیت لی ـ جب جنگ کے دوران ایک صحافی نے چرچل سے پوچھا کہ کیا برطانیہ کا مستقبل محفوظ ہے چرچل نے پوچھا کیا برطانوی عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں اگر کر رہی ہیں تو برطانیہ کا مستقبل محفوظ ہے- چرچل نے جنگ جیت لی مگر برطانوی عوام چرچل کی جماعت ٹوری پارٹی کے ساتھ وابستگی کا تسلسل قائم نہ رکھ سکے اور لیبر پارٹی انتخابات جیت گئی-چرچل نے لارڈ موران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” میں ساری زندگی کوشش کرتا رہا ہوں کہ تسلسل کی بجائے درست رہوں میں اپنے کہے ہوئے الفاظ ہضم کرتا رہا ہوں جو میری صحت کے لیے سازگار رہے”ـ لیڈروں کو قول و فعل کے تضادات کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے- لیڈر کا اخلاقی کردار قوم کی کامیابی کا ضامن بنتا ہے- قائد اعظم نے شفاف اور مستحکم کردار کی بناء پر مسلمانوں کے لیے آزاد وطن حاصل کر لیا- قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد خزانہ خالی ہو گیا انگریز کے تربیت یافتہ سٹاف نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کو نہ بتائیں کہ خزانہ خالی ہو گیا ہے- قائد اعظم نے پر اعتماد لہجے میں کہا کہ پاکستان کے مالکوں سے سچ نہ چھپاؤ جب تم عوام سے سچ چھپاتے ہو تو تمہاری مشکلات کا آغاز شروع ہو جاتا ہے لہذا عوام کو سچ بتاؤ چنانچہ اعلان کیا گیا کہ قومی خزانہ ختم ہو چکا ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں پاکستان کے عوام نے کروڑوں روپے” پاکستان فنڈ” میں جمع کرا دیے اور اس طرح پاکستان کےپہلے معاشی بحران پر قابو پا لیا گیا- آزادی کی تحریکوں اور گورننس کے دوران بہت کم لیڈرز ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ماضی کے الفاظ اور بیانات پر پہرہ دیتے ہیں- اکثر لیڈرز تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے الفاظ اور وعدے تبدیل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے- ایسے لیڈر تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتے ہیں- جو لیڈر اپنے قول اور فعل میں مطابقت قائم رکھتے ہیں وہ انسانی تاریخ میں چاند ستاروں کی طرح جگمگاتے رہتے ہیں- امریکی لیڈر فرینکلن روزویلٹ کا شمار امریکہ کے بانی لیڈروں میں ہوتا ہے- اس نے سیاست اور کردار کا مثالی رول ماڈل پیش کیا 1941 میں جنگ کی قیادت کی اور قومی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا امریکی قوم نے اسے چار بار امریکی صدر منتخب کیا- چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ نظریہ اور کردار پر بڑی اہمیت دیتے تھے-انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈوں کی نظریاتی تربیت اور اخلاقی کردار پر کئی کتابچے تحریر کئے- ماؤزے تنگ کا ثقافتی انقلاب بھی ایک حوالے سے سیاسی و نظریاتی تربیت کے لیے تھا- ان کی خواہش تھی کہ پرانا فیوڈل کلچر اور ذہنیت ختم ہو جائے تاکہ اجتماعی عوامی ترقی کے منصوبے کامیاب ہو سکیں- چین کے انقلاب کو کسانوں کا انقلاب کہا جاتا ہے کیونکہ اسی انقلاب میں دیہاتوں کے کسانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا-ماوزے تنگ نے اپنے خطاب 1945 میں کہا کہ چین کے کسان ہی صنعتی انقلاب لائیں گے اور صنعتوں میں مزدور کی حیثیت میں کام کریں گے-مستقبل میں لاکھوں کسان شہروں کا رخ کریں گے اور وہاں پر صنعت کی ترقی میں کردار ادا کریں گے- ماؤزے تنگ نے سب سے پہلے دیہاتوں کی ترقی کی طرف توجہ دی جب دیہات ترقی یافتہ ہو گئے تو شہروں کو ترقی یافتہ بنانے میں کوئی مشکل پیش نہ ائی-جو ملک دیہاتوں کو نظر انداز کرکے صرف شہروں پر توجہ دیتے ہیں وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ دیہاتوں کے لوگ ہجرت کر کے شہروں کا رخ کرنے لگتے ہیں-ماوزے تنگ نے کہا کہ کسان ہی صنعتی پیداوار کی بڑی منڈی ثابت ہوتے ہیں اور صنعتوں کی ترقی کے لیے نہ صرف خوراک بلکہ دوسری اشیاء بھی شہروں کو سپلائی کرتے ہیں-کسان ہی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور فوج کی مضبوطی اور استحکام کا سبب بنتے ہیں-کسان ہی بنیادی جمہوریت کے استحکام میں کردار
عالم اسلام کو درپیش مسائل اورحل
تحریر: قیوم نظامی عالم اسلام کو درپیش مسائل اورحل مولانا ظفر علی خان کا شمار تحریک پاکستان کے اہم لیڈروں اور ممتاز صحافیوں میں ہوتا ہےـ مولانا ظفر علی خان فاؤنڈیشن ہفتہ وار فکری نشستوں کا اہتمام کرتی ہےـ سکالرز کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اہم عالمی قومی سیاسی معاشی نظریاتی ثقافتی اور سماجی موضوع پر اظہار خیال کریں- فکری نشست کے آخر میں سوال وجواب کا موقع فراہم کیا جاتا ہے تاکہ حاضرین بھی زیر بحث موضوع کے بارے میں اپنا موقف پیش کر سکیں- مولانا ظفر علی خان فاؤنڈیشن کے چیئرمین محترم خالد محمود پر عزم اور سرگرم کردار ادا کررہے ہیں وہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ کا گہرا ادراک رکھتے ہیں – ان کو فاؤنڈیشن کے نیک نام جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شفیق جالندھری اوریا مقبول جان حکیم راحت سوہدروی اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی دختر ارجمند رضا ریاض کی پر جوش معاونت حاصل ہے- گزشتہ ہفتہ کو پاکستان کے نامور صحافی و اینکر محترم سہیل وڑائچ نے” عالم اسلام کو درپیش مسائل پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق ” کے موضوع پر فکر انگیز محققانہ لیکچر دیا- ان کا انداز بیان چونکہ آسان فہم تھا اس لیے ان کے لیکچر کا پورا ابلاغ ہوا- انہوں نے اپنے لیکچر کے آغاز میں سوال اٹھایا کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد 2 ارب ہے عالم اسلام کے 57 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں- مسلمان ملکوں ترکی مصر اور پاکستان کی افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنی عددی اہمیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور اس عددی طاقت کو عالم اسلام کی ترقی و خوشحالی کے لیے استعمال نہیں کر سکے-انہوں نے اپنے لیکچر کے اگلے مرحلے میں خوبصورت اور دلچسپ انداز میں اس سوال کا جواب بھی دے دیا-محترم سہیل وڑائچ نے کہا کہ عالم اسلام کے کسی بھی ملک میں مکمل جمہوری نظام موجود نہیں ہے جبکہ جدیدیت اور فکر و فن پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں-انہوں نے کہا کہ عالم اسلام گزشتہ 600 سال سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے-اسرائیل کی آبادی لاہور سے کم ہے مگر وہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے عالم اسلام پر حاوی نظر اتا ہے-اسرائیل کے پاس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا ایسا سسٹم موجود ہے کہ اسے فلسطین کے ہر گھر کا علم ہو جاتا ہے کہ اس گھر میں کون آیا ہے یا کون نکلا ہے-چنانچہ وہ اس اعلی معیار کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے جس کو چاہتا ہے اسے ٹارگٹ کر کے ہلاک کر دیتا ہے-انہوں نے کہا کہ ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور جب تک غلطی کو تسلیم نہ کیا جائے کوئی بھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتا-انہوں نے کہا کہ مسلمان مفکر ابن سینا اور ابن رشد مغرب کے ہیرو ہیں مگر ہم نے ان کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی-ہماری مثال علامہ اقبال کے اس شعر کی مانند ہے- آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں انہوں نے کہا کہ 1857 کی جنگ ازادی سے بہت پہلے ہی مغلیہ بادشاہت زوال کا شکار ہو چکی تھی اور برطانیہ نے سیکیورٹی اور فائنانس کی طاقت سے اس پر خاموش قبضہ کر رکھا تھا-سرسید احمد خان ایک ویژنری لیڈر تھے انہوں نے آثار الصنادید اور آئین اکبری جیسی اعلیٰ کتب قلم بند کیں-اسد اللہ غالب ان کے والد کے دوست تھے تو وہ ان کے پاس گئے اور آئین اکبری کا دیباچہ لکھنے کی درخواست کی-اسد اللہ غالب نے ایک فارسی کی نظم لکھ کر ان کو ارسال کر دی جس کا مفہوم یہ تھا کہ میرے بھتیجے آئین اکبری کی بجائے جدید زمانے کا مطالعہ کرو اور جدید زمانے کی ایجادات پر غور و فکر کرو-سر سید احمد خان نے جب سائنس اور انگریزی کی تعلیم پر زور دیا تو ان کو سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا- انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے علی گڑھ کالج قائم کیا جو بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بن گیا اور اس علی گڑھ یونیورسٹی سے تحریک پاکستان نے جنم لیا اور پاکستان کا قیام ممکن ہوسکا – انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وجہ کہ دینی مدارس میں سے کوئی ایک بھی ویژنری لیڈر پیدا نہیں ہو سکا-جبکہ انگریزوں کے بنائے ہوئے مشن کالج سیالکوٹ نے مولوی میر حسن جیسے استاد اور علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسی شہرہ آفاق شخصیات پیدا کیں- انہوں نے کہا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں مغرب سے متاثر تھے اور دونوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی تھی وہ دونوں مسلمانوں کے نامور اور ممتاز لیڈر بن گئے جبکہ کوئی مذہبی شخصیت مسلمانوں کی قد آور لیڈر نہ بن سکی- گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور ہندوؤں کے نامور لیڈر بن گئے-محترم سہیل وڑائچ کی اس بات سے مجھے علامہ اقبال کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ جب انگریزوں نے ان کو سر کا خطاب دینے کی پیشکش کی تو علامہ اقبال نے کہا کہ وہ اس شرط پر سر کا خطاب لیں گے جب ان کے استاد مولوی میرحسن کو بھی سر کا خطاب دیا جائے گا -انگریز گورنر نے پوچھا کہ آپ تو مفکر ہیں شاعر ہیں اور اپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں آپ کے استاد نے کون سی کتاب لکھی ہے تو علامہ اقبال نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ میرے استاد مولوی میر حسن نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ڈاکٹر جاوید اقبال ہے- محترم سہیل وڑائچ نے کہا کہ مسلمانوں میں تعلیم و تربیت اور سوچ کی کمی ہے مسلمانوں نے جتنی جنگیں لڑیں ان کی بنیاد قبائلی عصبیت تھی بنو ہاشم بنو عباس بنو امیہ سب قبائلی عصبیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ جنگیں لڑتے رہے-جب مغل بادشاہ آگرہ میں تاج محل تعمیر کر رہے تھے تو برطانیہ میں کوئین میری سکول تعمیر کیا جا رہا تھا-سلطنت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ اپنے ادوار میں آکسفورڈ اور کیمبرج کے مقابلے میں ایک بھی یونیورسٹی نہ
پی ٹی آئی کا احتجاج کامیاب یا ناکام ؟
تحریر : قیوم نظامی پی ٹی آئی کا احتجاج کامیاب یا ناکام ؟ پاکستان کے حالات روز بروز تشویش ناک ہوتے جا رہے ہیں – ایک جانب دہشت گردی کی نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے- اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تشویش ناک حالات نے بزرگ شہریوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے- انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں اس نوعیت کے افسوسناک اور الم ناک حالات بھی دیکھیں گے- بزرگ شہریوں کے اضطراب اور بے چینی پر اسد اللہ غالب کا یہ شعر صادق اتا ہے – اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو کراچی کے عوام نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کیا- احتجاجی عوام گورنر جنرل ہاؤس کے گیٹ کے سامنے پہنچ گئے-انگریز کے تربیت یافتہ سٹاف نے قائد اعظم سے کہا کہ ہمیں عوام پر لاٹھی چارج کرنا پڑے گا-قائد اعظم نے اپنے سٹاف سے کہا کہ تم پاکستان کے مالک عوام پر لاٹھی چارج کیوں کرنا چاہتے ہو- قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس کی بالکنی پر گئے اور عوام سے کہا کہ آپ کیوں احتجاج کر رہے ہیں آپ کے مطالبات کیا ہیں آپ کے پانچ نمائندے کل دس بجے میرے دفتر میں آ جائیں میں آپ کا مسئلہ حل کر دوں گا- قائد اعظم کی یہ بات سن کر احتجاجی عوام منتشر ہو گئے- عوام کے ہمدرد اور دوست لیڈر عوام پر لاٹھی چارج کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں- پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ غیر مقبول حکومتیں ہی عوام پر تشدد کرتی ہیں لاٹھی چارج کرتی ہیں اور بے دریغ آنسو گیس کا استعمال کرتی ہیں- اگر مینار پاکستان کو جانے والے راستے بند نہ کیے جاتے اور تحریک انصاف کے کارکن مینار پاکستان میں پہنچ جاتے تو کچھ بھی نہ ہوتا وہ احتجاج کرتے اپنا غصہ نکالتے اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے- احتجاج پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں جب بھی احتجاج کی کال دی جاتی ہے احتجاج سے پہلے پولیس گردی شروع ہو جاتی ہے لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے فعال اور متحرک کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں- چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے- فون سروس بند کر دی جاتی ہے کنٹینر لگا کر راستے روک دیے جاتے ہیں احتجاج کی کال دینے والی سیاسی جماعت حکومت کی ان افسوسناک کاروائیوں سے سیاسی فائدہ اٹھا لیتی ہےاور حکومت ہار جاتی ہے -حکومت چونکہ کمزور ہے اسے عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہے لہذا عمران خان کی کال کے بعد اس کے اوسان ہی خطا ہو گئے اور اس نے مینار پاکستان جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا-تحریک انصاف کے کارکنان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اور آنسو گیس سے متاثر ہوتے ہوئے مینار پاکستان کے قرب و جوار میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا-حکومت نے سیکورٹی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے اور ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کرنے کے باوجود ہار گئی اور عوام جیت گئے- انسانی تاریخ کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی- ڈی چوک اسلام اباد کی صورتحال اس قدر کشیدہ ہو گئی کہ حکومت کو پولیس کے علاوہ رینجرز اور فوج کو طلب کرنا پڑا تاکہ وہ امن و امان کے فرائض انجام دے سکے-اگر علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے آنے والے قافلے کو برہان انٹرچینج پر نہ روکا جاتا اور خندقیں نہ کھودی جاتیں اور کارکنوں پر بلا جواز شیلنگ نہ کی جاتی تو صورتحال اس قدر کشیدہ نہیں ہو سکتی تھی- پاکستان کے عوام ڈی چوک اسلام اباد پر سینکڑوں احتجاجی جلسے اور دھرنے دیکھ چکے ہیں-عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014 میں ڈی چوک اسلام اباد میں 126 دن کا طویل ترین دھرنا دیا تھا-اس تاریخی دھرنے میں 60 سے 70 ہزار افراد شریک ہوئے تھے- ایک معتبر رپورٹ کے مطابق علی امین گنڈا پور کے ساتھ صرف دو تین ہزار کارکن موجود تھے وہ اگر اسلام اباد میں داخل ہو بھی جاتے تو پولیس اور سیکیورٹی فورسز ان کو آسانی سے مینیج کر سکتی تھیں- مگر افسوس حکومت نے بوکھلاہٹ اور عجلت میں غلط فیصلے کر کے اشتعال انگیزی کی جس کا سیاسی نقصان خود حکومت کو ہی برداشت کرنا پڑا- وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت دونوں احتجاجی کال کو مناسب طریقے سے ڈیل کرنے سے قاصر رہیں-علی امین گنڈا پور صوبہ خیبر پختون خواہ کے منتخب وزیراعلی ہیں ان پر کچھ آئینی اور قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے گریز کرتے ہیں-ان کا قافلہ جب برہان انٹرچینج پر پہنچا تو اس قافلے میں سادہ کپڑوں میں پولیس کے لوگ شامل تھے- ایک رپورٹ کے مطابق اس قافلے میں درجنوں ایمبولینس اور ہیوی مشینری موجود تھی جبکہ ایک سو سے زیادہ افغانی شہری بھی اس قافلے کا حصہ تھے- علی امین گنڈاپور اکثر اوقات اشتعال انگیز گفتگو بھی کرتے رہتے ہیں-وہ ایک گمنام راستے سے اسلام اباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور چائنہ چوک پر چند منٹ موجود رہے تاکہ احتجاجی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں اس کے بعد وہ کے پی ہاؤس میں چلے گئے-وہاں سے وہ پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے جس کی وجہ سے پورے ملک میں افواہوں کا سلسلہ شروع ہو گیا-خیبر پختون خواہ اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا-علی امین گنڈاپور کی رو پوشی کے سلسلے میں مختلف قسم کی افوائیں گردش کرتی رہیں- آخر کار 24 گھنٹے کے بعد وہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کے پی ہاؤس میں موجود تھے اور چند افراد کے ساتھ مشکل راستوں کا سفر کرتے ہوئے پشاور پہنچ گئے- علی امین گنڈا پور کی ڈرامائی کہانی پر کوئی یقین کرنے کے